Home » Heart » ٹرافی

ٹرافی

ٹرافی
قریب کی نظر کا چشمہ لگائے ہوئے مطالعہ کرتے کرتے جب آنکھیں تھک جاتیں تو خالد کو آنکھیں موندنا پڑتی، دو لمحے کو آنکھوں کو سکون مل جاتا تو دوبارە مطالعہ شروع ہوجاتا ۔ کہانی بہت دلچسپ موڑ پر آپہنچی تھی۔ کہانی کا ہیرو ایک کھلاڑی تھا اور ٹرافی جیتنے کے لئے اَن تھک محنت کررہا تھا۔ خالد نے کتاب اوندھی رکھ دی۔ کہانی کے ہیرو نےخالد کے دل میں ایک معصوم سی خواہش جگا دی تھی ۔ اور اُس کواب یہ خواہش پوری کرنی تھی۔
نپے تُلے قدموں سے خالد اپنے کمرے سے باہر آیا۔ خواہش تھی تو ایسی کہ وە اُڑ کر پوری کرتا لیکن پچاس کا ہندسہ عبور کرچکا تھا چنانچہ احتیاط سے چلتے ہوئے لاوٴنج میں پہنچا۔ ٹی وی جس جگہ رکھا تھا ،اس کے اوپر والے شو کیس پہ نظرپڑتے ہی خالد کے چہرے پہ بہت خوبصورت اور گہری مسکراہٹ بکھر گئی۔ شو کیس میں خالد کی جیتی ہوئی ٹرافیوں کی ایک لائن لگی ہوئی تھی۔ ہر ٹرافی کے ساتھ ایک شاندار یاد وابستہ تھی۔ وە عزم، ولولہ، جوش، ساتھیوں کی ہلاشیری، اور جیت کا نشہ۔ ۔ ۔ واە ، اِن میں سے ہر ٹرافی کو جی جان کی بازی لگا کے اُس نے جیتا تھا۔ ماضی کی بہت سی خوبصورت یادیں خالد کے چہرے پہ مسکراہٹ بن کے جگمگانے لگیں۔
اچانک ٹرافیوں کی ماند پڑتی چمک نے اس کو متفکر کردیا، کبھی وە ان ٹرافیوں کو بڑے اہتمام سے پالش کیا کرتا تھا، دن میں کئی بار ان پہ نظر ٹِکا کرتی تھی، جب بھی وە ٹرافیوں کو دیکھتا اُس میں جیت کی سرشاری اور نشہ دوچند ہو جاتا، ۔ ۔ ۔ ہاں بھئی ۔ ۔ ۔ جیت کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے، اپنے ہم عمر اور ہم جماعتوں میں اُسےتفاخر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، رفتہ رفتہ وقت کی ریت پھسلتی رہی، اور زندگی نصف النہار پہ پہنچ گئی۔ ذمہ داریاں بدل گئیں اور وە بھی بہت سے دوسروں کی طرح خود کو وقت کی زد سے نہ بچا سکا۔ اُس کی جیت کی علامت، یہ ٹرافیاں اسی الماری میں پڑی وقت کی گرد کا نشانہ بنتی رہیں۔ لیکن کسی وفادار پتی ورتا کی طرح ان ٹرافیوں نے اس سے عمر بھر نبھانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ چنانچہ مدتوں اس کے نظر انداز کرنے کے باوجود یہ ٹرافیاں آج بھی اُسی کی تھی۔ بس اتنا فرق پڑا تھا کہ ان کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔ اب ان کی لش لش کرتی دمک نہیں رہی تھی جو نگاہ کو خیرە کردیتی تھی۔ شاید ان کو اپنے ٹرافی ہونے کااحساس بھی نہ رہا تھا کہ خالد نے کس لگن سے ان کو حاصل کیا تھا۔ پہلے پہل تو وە ان ٹرافیوں کو یوں دھیرے سے تھاما کرتا، اُٹھاتا، رکھتا گویا یہ جاندار ہی ہوں ۔ اس کے گھر والے، دوست احباب، دیکھنے والے اُس کے جنون اور جذب کو دیکھتے رە جاتے۔
اچانک خالد کو لگا کہ عمر کے اِس موڑ پہ وە اپنے سے منسوب ان ٹرافیوں سے کچھ خجل ہے، جیت کے سفرمیں یہ اس کی ساتھی رہیں لیکن وە اِن سے غفلت برتتا رہا  اور اُس کی بے اعتنائی سے چوٹ کھا کے یہ ٹرافیاں اپنی آب کھو بیٹھی۔ جیسے کوئی داسی اپنا من مار کے دیوتا کے نام ہوجاتی ہے اور اپنے آپ کی نفی کر دیتی ہے۔ یا کوئی مجاور جو صبح شام، اپنے حلیۓ سے بےخبر عشق کی دھمال ڈالنے میں مست رہتا ہو۔
لیکن اب اُسے اِن ٹرافیوں کا احساس کیوں ہوا؟ پہلے کیوں کبھی اس احساس نے سر نہ اُٹھایا؟ اتنی مدت تک وە بےخبری میں کیوں رہا؟  ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کسی کی قدر کا احساس تبھی ہوتا ہے جب انسان اُسے حاصل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ بیشتر کھلاڑی اپنے عروج کا زمانہ گزارنے کے بعد اپنی  صلاحیتوں کااصل ادراک کرتے ہیں ۔ پیسہ خرچ ہوجائے تو پھر کئی بہتر مصارف یاد آتے ہیں۔ دوست بچھڑ جائیں تو اُن کی خوبیاں ستاتی ہیں۔ صحت نہ رہے تو قدر آتی ہے۔ اسی لئے آج خالد کو اپنی ٹرافیوں کا خیال آیا تھا۔ جیت کے نشے میں یہ خیال کب رہتا ہے کہ کون کیسا ہے اور جسے جیتا ہو اُس کا مصرف جیت کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ کسی خوبصورت الماری یا شوکیس میں سجانے سے زیادە کیا ہوسکتا ہے۔ اورپھر آہستہ آہستہ وە ہماری توجہ کا مرکز نہیں رہتا۔ ہماری توجہ کی کمی سے ہماری ٹرافی اور شیلڈ پہ دھول مٹی پڑنے لگتی ہے۔ زمانے کی گردش کے ساتھ ساتھ یہ مٹی ٹرافی کی چمک ختم کر دیتی ہے۔ اور پھر کسی پالش کے ساتھ بھی وە آب وتاب واپس نہیں آسکتی۔ اب خالد کی ٹرافیاں پہلے کی طرح کبھی نہیں چمک سکتی تھیں۔ اور اب ہی تو وە وقت آیا تھا کہ اسے اِن ٹرافیوں سے محبت ہوئی تھی۔ ہاں ، منیر نیازی کےالفاظ یاد آئے،
محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائینگے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی
واقعی ، سچ کہہ گیا شاعر۔ ۔ ۔ ایک پچاس سالہ شخص  ملال لئے اپنےگھر کے لاوٴنج میں کھڑا ہے، آج بیتے دنوں کی یاد نے اُسے بےبسی کا شدت سے احساس دلایا ہے۔ خالد کے گھر میں دنیا کی تقریباً ہر نعمت موجود تھی لیکن پھر بھی خالی پن کا احساس اس کے دل میں بھرا پڑا تھا۔ کس چیز کی کمی تھی۔ اسی احساس کے ساتھ خالد نے ٹرافی کو واپس الماری میں رکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔ شاید کسی کتاب میں فرار کی راە ملے۔ کمرے میں آیا تو چند لمحے بعد ہی اُس کی بیوی چائے لے آئی۔ چائے کا وقت ہوگیا تھا۔ خالد نے مدت بعد اپنی بیوی کو غور سے دیکھا ۔ وە ابھی بھی حسین تھی ۔ حسین تو وە سدا سےتھی  اور اب گزرتے سالوں نے رفاقت کی مدھرتا گھول دی تھی اس کے سراپے میں۔ لیکن خالد نے اسے ٹرافی۔وائف ہی سمجھا تھا۔ بڑے مان سے اپنانے کے بعد کبھی اُس کی ماند پڑتی چمک پہ غور نہیں کیاتھا۔ آج اُس کا جی چاہتا تھا کہ اس کی بیوی ایک بار کھکھلا کے اُس کی طرف دیکھے۔ خالد کو دیکھ کے چہک اٹھے ۔ اس کے اطراف میں وە کھنکتی ہوئی ہنسی ہو جس پہ وە مرتا تھا۔ اب اس کی بیوی اس کےسامنے موٴدب ہوجایا کرتی تھی۔ شاید سہم جاتی تھی۔ کیا ٹرافیوں کی طرح وە کبھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی ؟
  ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیران میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر و باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہوگی
محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائینگے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی

7 thoughts on “ٹرافی

  1. جی ۔ میں شاید اس دنیا کا باسی نہیں ہوں یا شاید میری نظر یا عقل میں کوئی خرابی ہے ۔ میری بیوی آج شادی کے 45 سال بعد میرے لئے اگر زیادہ نہیں تو اتنی ہی چمک اور کشش رکھتی ہے جتنی شادی کے فوری بعد رکھتی تھی ۔ گو شادی کے بعد اُس نے کبھی میک اپ نہیں کیا

    Like

Leave a comment