Home » Heart » عظیم احساسات

عظیم احساسات

عظیم احساسات

– معاذ بن جبل ؓ کا کیا احساس ہوگا جب رسول صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا :

 “يامعاذ , والله إني لأحبّك”

“اے معاذ ، اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔”

– عبدالله بن عباس رضي الله عنه کا کیا احساس ہوگا جب رسول الله نے انھیں اپنے لپٹا کر کہا :” اللهم علمه الكتاب ” اے اللہ اِسے کتاب (قرآن) کا علم عطا کر”۔

– علي بن أبي طالب ؓ کا کیا شعور ہوگا جب غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

 لأعطينّ الراية غدًا رجلًا , يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله”

“کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں” اور رسول کی مراد *علی* تھے۔

– سعد بن أبي وقاص ؓ کا کیا احساس ہوگا جب  غزوە اُحد کے دن رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے کہہ رہے تھے: “ارمِ سعد,فداكَ أبي وأمّي ؟

“تیر مار اے سعد! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں”

 اس اندازِ تخاطب سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی اور صحابی کو نہیں بلایا۔

– ذوالنورین عثمان بن عفان ؓ کا کیا احساس ہوگا جب رسول صلی الله علیہ وسلم ان کے بارے میں تبوک کے لشکر کی تیاری کے موقعے پر فرمارہے تھے:”ما ضرّ عثمان مافعل بعد اليوم ” ؟ “آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا “

– كيف كان شعور أبو موسى الأشعريؓ والرسول يقول له : لو رأيتني وأنا أستمع لقراءتك البارحة “یعنی اگر تم مجھے کل رات دیکھتے جب میں تمہارا قرآن پڑھنا سن رہا تھا”

٭ ابویعلی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی بیوی عائشہؓ کے ساتھ ابوموسیٰ الاشعریؓ کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے تو انہیں ابوموسیٰ ؓکی آواز سنائی دی جو اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ رسول اللہﷺ اور حضرت عائشہؓ ،ابوموسیٰ ؓ کی قراء ت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ صبح جب ابوموسیٰ ؓ نبی کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا:

“اے ابوموسیٰ کل میں تیرے گھر کے پاس سے گزرا تھا۔ کاش تم دیکھتے جب میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ بلاشبہ تجھے آلِ داود کی آوازوں میں سے ایک آواز دی گئی ہے۔ ابوموسیٰ ؓنے کہا:

اگر مجھے آپ کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں آپ کے لئے اور زیادہ خوش الحانی سے قران پڑھتا۔”

– السائب بن يزيدؓ کا کیا احساس ہوگا جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اُن کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا، سائب کا بڑھاپا آگیا، داڑھی کے بال سفید ہوگئے لیکن سر پہ جہاں نبی صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ پِھرا تھا وہاں سے بال سیاە رہے۔

– أنصار کا کیا احساس ہوگا جب رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم والرسول نے ان سے فرمایا:

 اگر ہجرت ( کی فضیلت ) نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد بننا ( پسند کرتا ) اور اگر دوسرے لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا ۔

– أنصارکا کیا احساس ہوگا جب رسول صلی الله علیہ وسلم اُن سے فرمارہے تھے:

” ایمان کی علامت انصار سے محبت کرنا ہےاور نفاق کی علامت انصار رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے “

۔ ابو بکر صدّيقؓ کا کیا احساس ہوگا جب رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتاتو ابوبکر کو بناتا ۔

– عائشة رضی اللہ عنھا کا کیا احساس ہوگا کہ رسولِ اکرم نے برملا اُن کا نام لیا جب آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا :  آپ لوگوں میں سب سے زیادە محبت کس سے رکھتے ہیں ؟

– بلال بن رباح ؓ کا کیا احساس ہوگا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم  نے بلال سے فرمایا،”میں نے جنت  اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے،اپنا کیا ہوا ایسا عمل بتاؤ جس کے مقبول ہونے کی تمہیں بہت امید ہو”

انھوں نے جواب دیا،میں ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔وضو ٹوٹ جاتا ہے تو دوبارہ کر لیتا ہوں اور جب بھی وضو کرتا ہوں،دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا لازم سمجھتا ہوں۔آپ نے فرمایا، ہاں یہی عمل اتنے بلند مرتبے تک پہنچا سکتا ہے۔

-عمر  بن الخطابؓ کا کیا احساس ہوگا جب ایک بار انھوں نے نبی کی خدمت میں حاضر ہوکر دروازہ کھلوایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” دروازہ ان کے لیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو”

*حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ (بئراریس) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک صاحب نے آ کر دروازہ کھلوایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پر اللہ کی حمد کی، پھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، انہیں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر ایک تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لیے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں (دنیا میں) واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ جب میں نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے-

– تمام صحابہ کا کیا احساس ہوگا کہ وە ہر صبح شام رسول اللہ کو دیکھا کرتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا اُٹھاکرتے، باتیں کرتے، غزوات میں شریک ہوتے۔

اور ہمارا کیا احساس ہونا چاہیئے جب کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

” لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت اپنے دین پر صبر کرنے والا ایسے ہوگا جیسے انگارے کو ہاتھ میں پکڑنے والا ہوتا ہے” (جامع الترمذی ابواب الفتن ح ۲۲۶۰)

اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے۔ اٰمین

 

6 thoughts on “عظیم احساسات

  1. یقیناً ان احساسات کے مالکان دنیا کے سب سے خوش قسمت ترین انسانوں میں سے ایک ہونگے ۔
    کیا ہی خوشی اور سرمستی کا عالم ہوگا جب انہوں نے یہ الفاظ نبی کریم ﷺ کے مبارک زبان سے سنے ہونگے۔

    Like

  2. اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
    لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
    اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
    اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
    اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

    Like

Leave a comment