Home » Canterbury Tales » The summoner’s tale – 13

The summoner’s tale – 13

– سمنر کی کہانی:

سمنرsummoner کو فرائرfriar کی کہانی سُن کر بہت طیش آیا ، اِس قدر کہ وہ غصے سے کھڑا ہوکر کانپنے اور چٹخنے لگا۔ خیر اُس نے اپنی کہانی سے پہلے ایک گھٹیا سی جُگت سنائی کہ . . . . . ایک فرائر دوزخ میں گیا ، اور کچھ دیر وہاں گھومنے کے بعد یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ . . .وہاں کوئی بھی فرائر نہیں ہے ۔ اُس کو دوزخ میں لے جانے والے فرشتے نے اُس کی پریشانی بھانپ لی اور اِبلیس کی کئی گز بڑی دُم اُٹھاکر دِکھائی، جس کے نیچے بھِڑوں کی طرح ہزاروں فرائرز بھنبھنارہے تھے۔ اور پھر ، سمنر نے فرائرز کے بارے میں کراری اور توہین آمیز کہانی سنائی۔

ایک فرائر وعظ و نصیحت کی غرض سے بستیوں ، قصبوں اور دیہاتوں کا سفر کررہا تھا۔ اپنی موبائل سروس کے دوران ، وہ لوگوں کو راہِ خدا میں صدقات اور خیرات دینے کے فضائل بھی بیان کر رہاتھا۔ یونہی گلی گلی اور گھر گھر وعظ کے دوران تھامس کے گھر پہنچا۔ تھامس اُسے وقتاََ فوقتاََ نوازتا رہتا تھا، لیکن آج تھامس بیمار پڑا تھا۔ فرائر نے بڑے طمطراق سے تھامس کی بیوی کو بُلایا اور کھانے کی فرمائش کی۔

the-friar-and-thomas-the-summoners-tale

خاتون نے اُسے بتایا کہ اُن کے بچے کو وفات پائے دو ہفتے سے زیادہ وقت نہیں گزرا اور وہ دونوں بہت صدمے میں ہیں۔فرائر نے فوراََ بشارت دی کہ ابھی ابھی اُسے الہام اور غیبی اشارہ ہوا ہے کہ اُن کا بچہ بہت مزے سے بہشت میں ہے۔ آخر کار فرائرز خدا کے اِس قدر مقّرب اشخاص ہوتے ہیں کہ اِن کو غیبی اشارے ملتے رہتے ہیں اور اِن سے غیب کے پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ اُس نے سمجھایا کہ تھامس کی بیماری کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اِس بار تھامس نے کلیسا کے لئے قلیل نذرانہ دیا تھا۔ تھامس نے وضاحت کی کہ اُس نے نذرانے کی رقم کو تقسیم کرکے کئی ایک فرائرز کے ذریعے ادایئگی کردی تھی۔ اِس بات پہ فرائر کو بہت ہی تشویش ہوئی کہ چندے کی کُل رقم اُس کے ہاتھ کیوں نہ لگی . . . .؟ اُس نے کہا کہ ” ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہر شے اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتی ہے۔” اور اپنی بات کی دلیل کے طور پر دو بادشاہوں کے واقعات بھی سناڈالے ۔

اِس تمام تقریر کے بعد ، . . . حسبِ عادت فرائر پھر چندہ مانگنے والے نکتے پر آگیا۔تھامس کو فرائر کی بات پر تَپ چڑھی اور اُس نے فرائر کو بتایا کہ ایک تحفہ اُس کا مُنتظر ہے ۔ لیکن شرط صرف ایک ہے کہ فرائر کو وہ تُحفہ دیگر فرائرز کے ساتھ بانٹنا ہوگا ۔ اور یہ کہ . . . . تھامس خُود تحفے کے اُوپر بیٹھا ہوا ہے۔ فرائر نے اپنا ہاتھ تھامس کے پہلو کے نیچے کھِسکایا تو تھامس نے گھوڑے سے بھی بُلند آواز میں، زور دار ہوا خارج کی. . . ! فرائر غصے میں لال پیلا ہوتا ، دھمکیاں دے ہی رہا تھا کہ گھر کے ملازموں نے اُسے نکال باہر کیا ۔ فرائر غصے میں گاؤں کے نمبردار سے مِلا، تھامس کی شکایت کی، اور پوچھا ، . . . کیا بھلا فارٹ (fart) کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ؟ نمبردار کے مزارعے نے اُسے ایسا کرنے کا طریقہ بتایا۔

summoner1jpg

سب مُسافر کہانی سُن کر لوٹ پوٹ ہوئے اور سمنر کے دل کی بھڑاس کسی قدر کم ہوئی۔

5 thoughts on “The summoner’s tale – 13

  1. جُگت نے بڑا مزا دیا
    تو گویا اُس وقت بھی مذہبی افراد ایک دوسرے کی پگڑی یا ہیٹ اُچھالنے میں خاص شوق رکھتے تھے۔

    Like

  2. اچھا جی، اُس وقت بھی دین کی ملمع کاری کا رحجان پڑ گیا تھا ۔
    کہ مذہب کے نام پہ لوگوں کو لُوٹو اور دوغلا پن جاری رکھو۔پتہ نہیں مذہب کے نام پہ دھوکہ کرنا اتنا عام کیوں ہے ؟ اب بھی ظاہری عبادت گزار کیا کیا منافقت نہیں کرتے؟

    Like

  3. یعنی کہ نشاۃ الثانیہ سے پہلے کلیسا پوری طرح کرپٹ ہوچکا تھا اور ہر شعبہء زندگی میں ایمان داری ختم ہوچکی تھی۔ یہ صورت ہمارے آج سے کنتی مشابہ ہے۔ تو گویا ہم میں اور صدیوں پرانے انسانوں میں کیا فرق ہوا؟

    Like

  4. یہ کہانیاں میری سمجھ سے باہر ہیں البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے فرشتے کو ایک علاقہ تباہ کرنے کا حکم دیا ۔ فرشتہ لوٹ کر آیا اور عرض کیا کہ ان میں ایک شخص ہے جو ہر وقت آپ کے نام کی تسبیح کرتا ہے ۔ جواب ملا کہ ہاں اۃس سمیت ۔ اُس نے کسی کا کیا بھلا کیا

    Like

Leave a comment