-پرائرس کی کہانی:
جنرل پرولؤگGeneral prologue . . .یعنی تعارفی حصے میں پرائرس کا نام مادام ایج لین ٹائن بتایا گیا ہے جو انتہائی نفیس ٹیبل مینرز یا آدابِ طعام سے آراستہ ہے۔
پرائرس کی کہانی ایک شہید بچے کے بارے میں ہے جو جِیوز کے ہاتھوں مارا گیا۔ یہ مرکزی خیال ازمنہء وسطیٰ کے عیسائی ادب میں عام پایا جانے والا موضوع ہے ۔ جبکہ بعد ازاں اِن موضوعات کو یہودی تعصب اور تنافر پر مبنی ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ پرائرس نے کنواری مریم سے ہدایت کی دعا کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
پرائرس نے جو کہانی سُنائی وہ ایک مناجات پڑھنے والے بچے کے متعلق ہے جو مقدس مریم کے بارے میں ایک لاطینی نظم پڑھ رہا ہے جس کے معانی بھی وہ نہیں جانتا ۔ یہ کمسِن عیسائی بچہ ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جہاں یہودی آبادی ‘گھیٹو’ قائم تھی اور عیسائی اقلیّت میں تھے۔
آبادی کی اکثریت بدطینت اور کینہ پرور جِیوز پر مشتمل تھی۔ آبادی کے ایک کنارے، عیسائیوں نے اپنے بچوں کے لئے ایک سکول کھولا جہاں ایک بیوہ کا سات سالہ ہونہار بچہ بھی پڑھتا تھا۔ یہ ننھا بچہ اِس کم عمر میں بھی اپنے مذہب سے بہت گہری محبت رکھتا تھا۔ اپنے مذہب کی محبت اور تعظیم اِس ننھے بچے کے دل میں راسخ ہوچکی تھی۔ اُس نے اپنے سے بڑے ایک طالبعلم سے ایک لاطینی نظم سیکھی جس میں مقدّس مریم کی صفت اور مدح بیان کی گئی تھی۔ ابھی یہ ننھا بچہ لاطینی الفاظ کے معانی سے ناآشنا تھا مگر اپنے شوق کے وجہ سے اِس نظم کو گنگناتا چلا جاتا۔
ایک دن یہ بچہ سکول سے واپس آتے ہوئے ایک مدحیہ نظم گُنگنارہا تھا ۔ارد گرد کے جیُوز اس بات پہ سخت برہم ہوئے۔ اِن جِیوز کے دل میں شیطان نے حقد ، حسد اور نفرت بھر رکھی تھی۔ کچھ جِیُوز ،نفرت کی وجہ سے اُس بچے کا گلا کاٹ دیتے ہیں- وہ ظالم ، . . بچے کا سر تن سے جُدا کرکے اُس کا جسم گندگی میں پھینک کر چلے گئے۔
بچے کی ماں ساری رات اُسے تلاش کرتی رہی، جیوُز کی منتیں کرتی رہی کہ بچے کا پتہ بتا دیں۔ آخرکار بچے کا مردہ جسم گڑھے سے مل گیا۔
بچے کے کٹے گلے سے مناجات کی آواز سُن کراُس کی ماں کیا دیکھتی ہے کہ بچہ سر تن سے جُدا ہونے کے باوجود نظم گا رہا ہے ۔ دیگر عیسائی محلے دار بھی اکٹھے ہوگئے اور اِس معجزے پر حیران رہ گئے۔
محلّے داروں نے ایک بڑے گرجا گھر کے بڑے پادری کو بلایا کہ وہ خود آکر اِس معاملے کو دیکھے اور تشریح کرے۔ بڑے پادری نے آکر یسوع مسیح اور اُس کی مقدس ماں کی حمد و ثنا بیان کی، . . بچے کو وہاں سے اُٹھا کر قریبی خانقاہ میں لے جایا گیا۔ اِس تمام وقت میں . . . بچے کے سر کٹے جسد سے مناجات کی آواز آتی رہی۔
بچے کی تدفین سے پہلے اُس پر مقدس پانی ڈالا گیا تو وہ پھر بولنا شروع ہوگیا۔پادری نے بچے سے پوچھا کہ وہ کس سبب مرنے کے بعد بھی بولنے کے قابل ہوا؟
بچے نے بتایا کہ . . . مقدس مریم نے اُس کی زبان پہ ایک کراماتی دانہ رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ کٹے گلے کے ساتھ بھی راہِ حق میں قربان ہوتے ہؤئے یہ پڑھ رہا ہے:
Alma Redemptoris Mater
(Kindly mother of the Redeemer)
پادری نے بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ . . . واقعی وہاں مٹر جتنا ایک کراماتی دانہ موجود ہے۔ جونہی وہ کراماتی دانہ ہٹایا گیا تو بچے کا انتقال ہوگیا ۔ بڑے پادری نے یہودیوں پر لعنت اور پھٹکار بھیجی۔ بچے کو شہیدوں کی طرح شان و شوکت سے دفنایا گیا۔ کہانی کے اختتام پر بچے کی ناگہانی موت پر نوحہ اور ماتم ہے۔
یہ اور اِس جیسی کئی خونیں کہانیاں اُس وقت میں عام تھیں جو کلیسا کی طرف سے بیان کی جاتی تھیں۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق ، بارہ سو نوّے عیسوی میں جیوز پر، . . .انگلستان میں پابندی تھی، جو کہ کم و بیش اِس کینٹربری کہانیوں کی تحریر سے سو سال پہلے کی بات ہے۔
بہت اعلی . . مصنفہ کی تحریر قابل ستائش ہے. . تصاویر دیکه کر کہانی میں جان پڑ گئی.
LikeLike