دنیا کے بڑے بڑے کہانی کاروں کا ، اِس بات پراتفاقِ رائے ہے کہ کہانی جب بھی کہیں جنم لیتی ہے تو اُس کے پیچھے ضرور حقیقت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ خود ساختہ اور من گھڑت کہانی کی عمر ، کم سِنی میں وفات پا جانے والے بچوں کی طرح، بہت کم ہوتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ یہاں نظر آتا ہے۔ چاوسر کا میزبان ، کینٹربری کے سفر کے دوران، سفر کی کوفت سے بچنے کے لئے، مسافروں سے کہانی سننے سنانے کی بات طے کرتا ہے۔ چودہویں صدی کا سفر ہے جو آجکل کے سفر کی طرح تیز رفتار اور آرام دہ نہیں ۔ اور یہ عام بات تھی کہ سفر میں ایسی باتیں ہوں۔ اہلِ فارس کے چہار درویشوں نے بھی سفر ہی میں اپنی حکایات بیان کیں تھیں۔ چاوسر کے مسافر اپنی اپنی کہانی سناتے جا رہے تھے کہ مونک کی باری آئی ۔ اور مونک نے ایک ثابت کہانی کی جگہ ، مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والے،کئی ایک المیہ حالات سنائے جن میں سننے والوں کے لئے عبرت ہو کہ
سدا نہ باغے بُلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
اپنے المیہ اور دردناک واقعات میں مونک نے کچھ اساطیری، دیومالائی اور تخیلاتی کرداروں کا حال سنایا ۔ اور پھر سلطنتِ بابُل کے ایک طاقتور بادشاہ بخت نصر کے انجام کا واقعہ بیان کیا جس میں عبرتِ عالم ہے۔ مونک نے اگلا اور چھٹا تذکرہ اسی بادشاہ بخت نصر کے جانشین کا سنایا ۔
– بابُل کا بیلشضر:
بابل کے بادشاہ کا جانشین اور نواسا بیلشضربھی جھوٹے دیوتاؤں ، خداؤں اور بتوں کا پُجاری تھا ۔ مونک کہتا ہے:
BELSHAZZAR
His son and heir–Belshazzar was his name–
Held power after Nebuchadnezzar’s day
But took no warning from his father’s shame
He was so proud of heart and in array
And lived in so idolatrous a way
And on his high estate himself so prided
That Fortune cast him down and there he lay
And suddenly his kingdom was divided
مونک نے یہاں بیلشضر کا ایک مشہور واقعہ ذکر کیا ہے۔ ایک مرتبہ بیلشضر نے اپنی ریاست کے ایک ہزار سرکردہ افراد ، نوابوں اور معززین کی ایک دعوت بُلائی ۔ شاندار دعوت جاری تھی۔ مہمانوں نے مقدس مٹکوں سے مشروب پیا ۔ایک روایت کے مطابق یہ مٹکے بخت نصر یروشلم سے لایا تھا ۔
اسی اثنا میں بیلشضر کو ایک کٹا ہوا ہاتھ نظر آیا جو کہ دیوار پہ کچھ تحریر کر رہا تھا۔ یہ تحریر بےحد پُراسرار تھی۔
His wife, his lords, and all his concubines
Then drank, as long as appetite would last
Out of these noble vessels sundry wines
Then on a wall his eyes Belshazzar cast
And saw an armless hand inscribing fast
Which made him quake in fear. Upon the wall
This hand, which had Belshazzar so aghast
Wrote Mane, techel, phares, that was all
بادشاہ بیلشضر پہ ہیبت طاری ہوگئی اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا، اُس نے پیغمبر دانیال کو محل میں بلایا ۔ دانیال نے بآسانی اس تحریر کو پڑھ لیا اور بتایا کہ یہ تحریر اُس کی سلطنت کے تباہ ہونے کی پیشین گوئی کررہی ہے۔
اِس نوشتہءدیوار کا مطلب ہے کہ تمھاری بادشاہی کے دن گنے جاچکے ہیں . . . تمھیں کسوٹی پر پرکھا گیا لیکن تم کم معیار اور ناقص نکلے . . . اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتے رہے . . . عنقریب تمھاری حکومت دشمنوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔
MENE; God hath numbered thy kingdom, and finished it.
TEKEL; Thou art weighed in the balances, and art found wanting.
PERES; Thy kingdom is divided, and given to the Medes and Persians.
انجیلِ مقدس کی روایات کے مطابق . . اُسی رات بادشاہ قتل کردیا گیا اور جلد ہی اُس کی سلطنت دو دشمنوں کے قبضے میں چلی گئی . . . اور بیلشضر کا افسوسناک انجام ہوا۔
“This hand was sent from God that on the wall
Wrote Mane, techel, phares, trust in me
Your reign is done, you count for naught at all
Your kingdom is divided, it shall be
Given to Medes and Persians,” augured he
This king was slain upon that very night
Darius then replaced him in degree
Although he had no lawful means or right
اب یہ جملہ یا ضرب المثل . . . نوشتہءدیوار کو پڑھنا . . .تقریبا تمام زبانوں میں استعمال ہوتا ہے . . . جیسے کہ سردار اپنے قبیلے پر ظلم ڈھاتا رہا لیکن اُسے نوشتہء دیوار نظر نہ آیا . . . . یا حکومت میں شامل افراد کو نوشتہء دیوار پڑھ لینا چاہیئے۔
مونک کہنے لگا کہ یہ عبرت ناک واقعات انسان کو بہت سبق سکھاتے ہیں کہ تخت اور اقتدار پہ متمکّن ہو کر عاقبت کو بھولنا نہیں چاہیئے ۔ بُرا وقت آئے تو سب تدبیریں اُلٹ ہو جاتی ہیں۔
My lords, examples hereby you may take
Security is not a lord’s to know
Whenever Fortune chooses to forsake
She takes away one’s reign, one’s wealth also
And friends as well, though they be high or low
If it’s to Fortune that friendships are due
Mishap, I guess, will turn a friend to foe
This is a common proverb and it’s true
مونک کہتا ہے: تو صاحبو اور میرے ہم سفرو: زندگی ایسی بھی قابلِ بھروسہ چیز نہیں ، اور قسمت کا ہیر پھیر بڑی ظالم حقیقت ہے ، کسی چیز کو دوام حاصل نہیں۔ جب اندھیرا ہو تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔
Pingback: The End of Monk’s Tale – 40 | SarwatAJ- ثروت ع ج
wow…….. so that is the story behind…. . نوشتہءدیوار
LikeLike
Enjoyed your writing, and the pictures. Reading the story, it does strike terror in the heart. Sheen.
LikeLike
Thanks dear Sheenmeem for your visit, yes it invokes terror. went through sme feeling while compiling it. stay blessed.
LikeLike
سدا نہ باغے بُلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
LikeLike
Regards for your visit Azeem sb, stay happy.
LikeLike