Home » Blogger's » بچپن کے روزے

بچپن کے روزے

بچپن کے روزے

بہت عزیز نورین تبسم کے چاہت بھرے حکم پہ ہمت باندھی کہ ذہن کے تہہ خانے میں جاکر ، بچپن کی یادداشتوں والا صندوق کھولوں اور پہلے روزے کے حوالے سے یادیں باہر نکال لاؤں۔ بچپن ، اور بچپن کی یادوں والا صندوق انسان کے شعوری اثاثوں میں سب سے خوشنما اور مضبوط بکسا ہوتا ہے۔ جس قدر یہ بکس مضبوط ہوتا ہے، اُسی مضبوطی سے ہم اِسے بند رکھتے ہیں، ورنہ شاید کبھی کوئی زندگی میں، بچپن سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اردو بلاگرز کی انوکھی روزہ رکھوائی و کُشائی پارٹی، بچپن کی حسین اور میٹھی یادوں سے جگمگارہی ہے۔

خیر تمام یادیں کنگھالنے کے بعد پتہ چلا کہ . . . . . پہلے روزے کے نام کی کوئی بھی بات یاد نہیں۔ اِس کے ساتھ ہی یہ سب سوچیں بھی ذہن میں آئیں کہ اب یہ ایسا معاملہ ہے کہ . . . . . . . . جسے گوگل بھی نہیں کیا جاسکتا، نہ وکی پیڈیا پہ اِس بات کا سراغ ملے گا ، نہ ہی اُس وقت انسٹاگرام تھا کہ اماں ابا نے پہلی بیٹی کی پہلی افطاری کی تصویر بنائی ہوتی، یا بہت محتاط بھی ہوتے (جو کہ وہ تھے اور ہیں) تو محض افطاری والے دسترخوان کا عین اوپر والا ، عمودی شاٹ ہوتا یا شاید ساتھ میں میرا بچکانہ سا ہاتھ دھرا ہوتا ۔

اِن ناممکنات کے بعد صرف ممکنہ صورتوں پہ توجہ مرکوز کی تو چند متفرق ،بکھری اور قیمتی تصویریں ہاتھ لگیں جو یقیناََ پہلے روزے کی تو نہیں لیکن . . . . دُور پار کے اُس سنہرے بچپن کی ہیں جب ریاست ہی اپنی ہوا کرتی تھی اور سکّہ بھی اپنا ہی چلتا تھا۔

ایک جھلکی کہ سکول میں چھُٹی کا وقت ہے اور میں کینٹین سے فروٹ ٹیلا (وہی جو، اب بھی ملتی ہے) خرید رہی ہوں، جو کہ اُس دن روزے میں بہت یاد آئی تھی اور خود کو حوصلہ اور روزے کا انعام دینے کی خاطر ہنگامی فیصلہ کیا کہ اِسے افطاری کے لئے خرید کر ہی گھر جانا ہے۔

ایک اور یاد . . . . رمضان میں امّی کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر روز مسجد میں افطاری ضرور بھیجی جائے۔ کبھی میری ڈیوٹی لگتی اور وقت کم رہ جاتا تو ہوا کی طرح بھاگتے ہوئے جانا اور آنا ہوتا اور اِس دوران راستے میں آنے والی رکاوٹوں (لوگوں کے گھروں کے گیٹ کی سیڑھی، فٹ پاتھ وغیرہ) کو پھلانگ پھلانگ کے عبور کرنا اور آناََ فاناََ دسترخوان پہ پہنچنا ۔ ایسا کرتے ہوئے ذہن میں خیال آتا کہ کبھی کارٹون والے سپر مین کی طرح اُ ڑنے کی پاورز ہوتی تو کیا ہی بات ہوتی۔ خیر اب بھی کچھ کسر نہیں تھی۔

سعودی عرب میں کام کرنے والوں کے اوقاتِ کار رمضان میں آٹھ سے چھ گھنٹے کردئیے جاتے ہیں تو . . . . ابّو کا گھر پہ زیادہ وقت گزرتا اور ہم بچوں کے لئے ایک تہوار کا سماں ہوتا ۔ ابو عصر کی نماز پڑھ کر آتے ، پھر بڑے سے کچن میں بچھے کارپٹ پہ ہی دسترخوان بچھا کر افطاری کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا۔ ابو بہت شوق سے فروٹ چاٹ بنانے میں شامل ہوتے، کبھی پھل چھیل کر دیتے ، کبھی خود کٹنگ بورڈ سنبھالتے، بار بار امی سے کہتے: دیکھنا جی، میرا خیال سیب کافی رہیں گے، یا تُسی ایس ڈونگے وچ چینی تے ہور مصالحہ پا دیو ( آپ اس ڈونگے میں چینی اور باقی مصالحہ ڈال دیں) ، امی وہیں سامنے چولہے پر کڑاہی سے پکوڑے نکالتیں، ذرا دیر کو اِدھر آتیں، کچھ بتا جاتیں، یا نمک، کالی مرچ اور کلونجی پیس کے ڈال جاتیں۔ ایک بہن شربت پہ مامور ہوتی ، تو دوسری چٹنی بنارہی ہوتی۔

اِسی دوران سب باتیں جاری ہوتیں، مشورے، نصیحتیں، حکایتیں، رمضان کے فضائل، قصص الانبیاء، کالم، تفسیر، ہسپتال میں آج کیا ہوا، دوسرے ڈاکٹرز کی باتیں، کسی مریض کا ماجرا اور بچوں کو ڈانٹ شانٹ ، سب ۔ ایسی ہی اکثر نشستوں میں ابو اپنی پسندیدہ دعا کا مفہوم سمجھایا کرتے :

رَبَّنا اٰ تِنا فِی الدُّنیا حَسَنَۃََ وَ فی الآخِرۃِ حَسَنَۃََ و قِنا عذابَ النَّار

کہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی اور ابدی نجات ، سب ایک ہی دعا میں شامل ہوگئے۔

پھر وہیں افطار کی تیاری کا منظر بدل کر افطاری چُن دی جاتی، اِفطار کے بعد ابو اور بھائی مسجد چلے جاتے اور ہم گھر پہ نماز پڑھ لیتے۔ مردوں کے مسجد جانےکے بعد اگر کوئی بچہ کچھ کھانے لگتا تو امی کو اچھا نہ لگتا کہ آپ کے ابو بھی تو نماز پڑھنے گئے ہیں۔ نماز کے بعد افطاری کا دوسرا حصہ عمل میں آتا ، جس بہن کی برتن دھونے کی باری ہوتی ، وہ سِنک پہ پہنچ جاتی یا پہنچا دی جاتی۔

کچھ دیر آرام کے بعد عشاء کی تیاری شروع ہوجاتی، ابو ہسپتال کے لئے کپڑے بدل لیتے،ہم سب اکٹھے مسجد جاتے، ابو عشاء اور تراویح کے بعد وہیں سے ہسپتال چلے جاتے اور باقی گھر کو لوٹتے۔ صبح نو سے بارہ اور رات کو بھی نو سے بارہ ابو کی ڈیوٹی کا ٹائم ہوا کرتا تھا۔ تراویح کے لئے ہر مسجد میں خواتین کے لئے اہتمام کیا جاتا، ہم کبھی کبھار خصوصی طور پر شیخ احمد العجمی کی مسجد میں جاتے اور رُوح پرور تلاوت کے ساتھ تراویح ادا کرتے۔

مسجد میں چھوٹے بچوں والی خواتین کی وجہ سے خُوب رونق رہتی، بچوں کو جماعت کے دوران پچھلی خالی صفوں میں کھُلی آزادی حاصل ہوتی، جماعت کے دوران پیچھے اولمپک کی جھلکیاں چلتیں اور تشہد کے شروع ہوتے ہی سب بچے مؤدب بن کے بیٹھ جاتے۔ سعودی خواتین اور خاص طور پر گھرہستن اور بڑی عمر کی اکثر پانی کے کُولر اُٹھائے یا اُٹھوائے چلی آرہی ہوتیں۔ساتھ میں کاغذی (ڈسپوزیبل) گلاس اور کوُلر میں فلیورڈ پانی، عرقِ گلاب، زھری اور کھجور کی چھال کے عرق والا بھی پیا جو پینے میں اچھا سا لگتا ۔ وہ اُس کو ہاضمے کے لئے مفید بتایا کرتیں۔

وقت بِیت گیا ، یہی زمانے کی روایت ہے،سب بہنیں اور بھائی دنیا اور آخرت کی بھلائیوں سے مالا مال ہوں، اللہ تعالیٰ امی کو اپنی حفاظت میں رکھے اور صحت تندرستی کے ساتھ اولاد کی خوشیاں نصیب ہوں، اللہ تعالیٰ ابو کے درجات بلند کرے،اُنھیں اپنی خصوصی رحمت سے نوازےاور ہمیں ا ُن کے لئے صدقہءجاریہ بننے کی توفیق ، ہمت اور آسانی عطا فرمائے۔

11 thoughts on “بچپن کے روزے

  1. Buht khobsurat yadain ap ny share k.bachpan ka superman :-)ar kitchen my sb ka mil bethna ap k father ka duniya ar akhrat ki bhali btana ar sb sy mazy ki baat kisi behn ka sink pa “punchaya”jana lovely.:-) 🙂 🙂

    Like

  2. بہت خوبصورت شیئرنگ اور بچپن کی یادوں کے لےے شکریہ .اللہ آپ کو خوش و خوش حال رکهے.

    Liked by 1 person

  3. Pingback: اردو بلاگنگ سلسلہ میرا پہلا روزہ | منظرنامہ

  4. عمدہ تحریر جس میِں مزاح بھی اور تحریری اسلوب بھی مجھ جیسے نئے بلاگر جے سیکھنے کے لیے بہت کچھ الفاظ کا استعمال وغیرہ

    Liked by 1 person

  5. جزاک اللہ ۔ یہ ہوئی نہ بات۔ ہم سب کو رمضان المبارک کے حوالے سے اپنی اپنی یادوں کی پوٹلیاں ہی تو ایک دوسرے سے شئیر کرنا تھیں۔ اس یاد میں کوئی اپنی روزہ کشائی کی سنہری یاد لے آیا تو کوئی اپنے پیارے بچھڑنے والے رشتوں کی یاد سے سجے لفظوں کے موتی ۔ اہم یہ ہے کہ ماہ مقدس میں اپنے اندر اتر کر اپنے ماضی میں جھانکنا کوئی کھیل تماشا ہرگز نہیں تھا بلکہ اپنی محبتوں کو بانٹنا تھا اور سب لکھنے والوں کے لفظ جانے والے اپنے پیاروں کی یاد کے آنسو ہیں تو یقیناً صدقہ جاریہ بھی ہیں ۔

    Liked by 1 person

  6. ایک اور یاد . . . . رمضان میں امّی کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر روز مسجد میں افطاری ضرور بھیجی جائے۔ کبھی میری ڈیوٹی لگتی اور وقت کم رہ جاتا تو ہوا کی طرح بھاگتے ہوئے جانا اور آنا ہوتا , یوا کی طرح بھاگا نہیں جاتا اڑا جاتا ہے :ڈ :ڈ
    کاش کوئی لٹا دے میرے بچپن کے دن۔

    Liked by 1 person

  7. کتنا خوبصورت ہوتا ہے بچپن اور اس سے جڑی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلی صفوں میں بچوں کو کھلی چھٹی لیکن آج مسجدوں میں بچوں کے ساتھ کچھ لوگوں کا سلوک دیکھ کے دکھ ہوتا ہے

    Liked by 1 person

Leave a comment