سونے کا نوالہ
چہکتے کھلکھلاتے باتیں کرتے بچے ہر جگہ رونق کا سبب ہوتے ہیں ۔ آجکل بچے بہت گہری باتیں کرتے ہیں ۔ اب بچوں کو بہت زیادہ پابند نہیں رکھا جاتا۔ بے تکلفی سے منہ پھٹ ہونے تک کے تمام معاملات عام ہیں۔ تربیت کے اعتبار سے معاشرےمیں بہت تبدیلی آچکی ہے
ایک وقت تھا جب خاموش گم سم اور مودب بچہ آئیڈیل سمجھا جاتا تھا۔ عرصہ دراز تک ہمارے گھروں میں یہ جملے سنائی دیتے تھے، دیکھو فلاں بچہ کتنا اچھا ہے، خاموش رہتا ہے اور کوئی شرارت نہیں کرتا۔ گویا خاموشی ہی قابلِ تعریف تھی اور شرارت کرنے کی خواہش سے عاری ہونا مثالی تھا۔
یہ سونے کے نوالے اور شیر کی آنکھ کا زمانہ تھا۔ سونے کا نوالہ تو وہی کھلاتے جن کے بس میں ہوتا لیکن شیر کی ایک آ نکھ اور بسا اوقات شیر کی دونوں آنکھیں تو ہر ایک کے بس میں تھیں اور وہ بھی بنا کسی لاگت کے۔لہٰذا اُس عہد نے وہ سپوت اور نسل پیدا کی جو گھر میں ہی آنکھیں دیکھ کر سہم جایا کرتی تھی۔
اِس سوچ کے حامل والدین اولاد کو تابعدار بنانا زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے۔ اِس تابعداری کا حاشیہ بھی متعین نہیں تھا، نہ ہی کوئی قانون تھا ۔ عام طور پہ تابعداری کا امتحان ایثار اور قربانی سے لیا جاتا۔ خاموشی سعادت مندی کی اولین شرط تھی۔ اور جہاں ضرورت ہوتی فوراً والدین کو اُف تک نہ کہنے کی دلیل پیش کردی جاتی۔
شیر کی آنکھ سے دیکھنے کی ادا کسی حد تک ٹھیک تھی لیکن اس کے اثرات بہت عرصے میں سامنے آئے۔ معلوم ہوا کہ دبے سہمے خاموش طبع بچے جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو انھیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر اس لئے کہ ایسے بچے جدوجہد کی خواہش نہیں رکھتے اور قدم بڑھا کر جگہ لینا نہیں جانتے۔ جبکہ معاشرے کی ترقی کے لئے، اور باشعور انسان بننے کے لئے ہر خوف اور دباوٴ سے مبرا درست اور غلط کا واضح شعور ہونا لازمی ہے۔ آگے بڑھنے کی جستجو، تڑپ اور مقابلے کا رحجان ہونا بہت ضروری ہے۔
والدین کی تابعداری اور فرمانبرداری بہت اچھی چیز ہے مگر یہاں جو امر قابلِ غور ہے وہ یہ کہ تقدس اتنا بلند کردیا گیا کہ والدین سےسوال کرنا فرمانبرداری کے منافی قرار پایا۔ والدہ سے تو پھربھی دبے لفظوں میں کوئی فرمائش یا سوال کرنا روا تھا مگر والد ایسی ہستی تھے جن کے گھر میں قدم رکھتے ہی کایا پلٹ ہوجاتی تھی۔ مسکراہٹیں، قہقہے اور فی البدیہہ سرزد ہونے تمام حرکات معطل کردی جاتیں۔ کسی کو کچھ پوچھنا کہنا روا نہ تھا۔ ایلی شدید خواہش کے باوجود تمام عمر باپ سے سوال کرنے کی جراٴت نہ کرسکا۔
۔ ۔ ۔ یہ سب ادب کے لوازمات تھے۔
حالانکہ ادب اور استفسار کے دائرے الگ الگ ہیں۔ سوال، وضاحت، نصیحت، تشریح، ۔ ۔ ۔ یہ سب باتیں ادب کو متاٴثر نہیں کرتی، لیکن شیر کی آنکھ کا معاملہ تھا۔ بہت سے لوگ جنگل کے بادشاہ کے اس قانون کو آج سنہرے دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن اس قانون کے اثرات پہ نظر نہیں کرتے۔
اس بات پہ کوئی اختلاف نہیں کہ ادب پہلا قرینہ ہے۔ ۔ ۔ ۔
مگر یہ بھی دیکھئے کہ ادب ”محبت” کے قرینوں میں پہلا قرینہ ہے ۔ ۔ ۔ نہ کہ خوف اور ڈر کے ساتھ ادب کو جوڑا جائے۔
ایسی موٴدبانہ روک ٹوک ہر تعلق کو پھیکا بنا دیتی ہے۔ اس کےساتھ ساتھ نفسیاتی گِرہیں پڑنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ادب اور بے تکلفی میں فرق کو سمجھا جائے اور سمجھایا بھی جائے۔
دبے اور سہمے ہوئے ماحول میں پلے بڑھے افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط بات کے سامنے مزاحمت کرنے کی کوشش نہیں کرتے، نہ ہی ایسی خواہش رکھتے ہیں۔ ایک عرصے تک دبے سہمے ماحول میں رہنے کے بعد ایسے افراد میں شعورمندمل ہوجاتا ہےاور اگر اس طرح کا کوئی روئیہ ظاہر کریں بھی تو وہ اپنے دبےہوئے ماحول کے ردعمل کے طور پر ہوتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ ہر سطح پہ ایسی ہی دو انتہائی سوچوں کی وجہ سے الجھاوٴ کا شکار ہے۔ بہت سے لوگوں کے بہت سے نظریات کی نہ سمت ہے اور نہ منطق۔
نارمل روئیے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ افراد کی تربیت میں کسی بھی طرح کی انتہا سے کام نہ لیا جائے۔ اس قدر بےتکلفی نہ ہو کہ کسی حد کا پاس ہی نہ رہے اور نہ ہی اس قدر سختی ہو کہ پابندی میں رہتے ہوئے صحیح اور غلط کا شعور ختم ہوجائے۔