پھول کی پتی سے

پھول کی پتی سے . . . .

image

کہتے ہیں آگہی بہت دردناک ہوتی ہے۔ جب تک انسان لاعلمی کے باغیچے میں گھومتا رہے اُس کو حقائق کی کڑی دھوپ کا اندازہ نہیں ہوتا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ جو زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہوجائیں، جان کر یا انجانے میں، اُن کے اندر ایک تلخی سی رچ جاتی ہے۔ مسکرانا بھول جاتے ہیں، چہرہ تنا رہتا ہے، آنکھیں سوچ میں غرق، اور بات بے بات کڑوی بات کر دیتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ معاشرہ اُن کو اس بات کی رعایت دینے لگتا ہےکہ وہ اپنی کڑواہٹ اور خفگی کا بآسانی اظہار کرسکیں۔

ایسے افراد کو پہچاننا آسان ہے۔ معاشرے میں جابجا ایسی علامات نظر آجائیں گی۔ یہی علامات اکثر و بیشتر سمجھداری ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ چار لوگوں کی محفل ہو تو جس کو سمجھداری کا سب سے زیادہ زعم ہوگا وہ شخص چہرے پہ سب سے زیادہ لکیریں پیدا کرنے کی کوشش میں ہوگا۔ ہنسنے میں شدید تاٴمل ہوگا، دیگر ہنستے مسکراتے چہروں پر تنقیدی نگاہیں ڈال رہا ہوگا گویا ان کی طفلانہ سوچوں پر افسوس ہورہا ہے۔ یہ باتیں معاشرے میں بہت عام ہیں اور بآ سانی ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس زمرے میں وہ مصنوعی حرکات اور سکنات بھی شامل کرلیں جو عام طور پہ خود طاری کی جاتی ہیں تاکہ خود کو زیادہ سے زیادە سنجیدہ اور سمجھدار ثابت کیا جاسکے۔ تنی ہوئی بھنویں، چہرے پہ وحشت، قلق اور توتر، تیوری چڑھی ہوئی اور ان سب میں جس بات پہ سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے وہ یہ کہ دوسرے پہ اپنی ٹینشن اور تناوٴ زیادہ سے زیادہ ثابت کیا جاسکے۔ اس روئیے میں از خود طاری کردہ کیفیت کے ساتھ فطری ردِعمل بھی شامل ہے۔ گویا زبانِ حال سے مدعا ہو کہ کاش کوئی عقلمندی اور فراست کی سند لکھ کر دے دے۔

معاشرے میں یہ سب علامات سنجیدہ اور سمجھدار لوگوں سے منسوب ہیں۔ نادراً ہی کوئی ہشاش بشاش اور مسکراہٹ سے سجا چہرہ سینئر سطح پر نظر آتا ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کرنا ہو تو کسی تقریب، موقع کی یا ذاتی تصاویر دیکھ لیں۔ لوگ فوٹوگراف بنواتے ہوئے جس لمحے کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے درُشت تاٴثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شناختی کارڈ، گروپ فوٹوز، انگیٹھیوں اور فریموں میں سجی تصویروں میں ایک جامد تاٴثر ملے گا۔ خود کو سیانا سمجھنے والا ہر شخص چہرے پہ انتہائی متفکرانہ تاٴثرات پیدا کرکے بیٹھا نظر آئے گا۔ خوشی کے موقعے کی تصاویر میں “فکرآور” مُورتیں عام ہیں۔

کرتے کرتے یہ معاشرتی وطیرہ ہوگیا کہ اداروں، گھروں، سکولوں، محلوں اور محفلوں میں سمجھدار، بڑے، بزرگ اور سینئر لوگ سنجیدگی کے خول میں نظر آئیں۔ نالاں بزرگ، تنہائی پسند بڑے لوگ، ہر دم پریشان شاکی آنٹیاں اور نرگسیت میں مبتلا سکالرز اور دانشور۔ اگر وہ اپنے شعور کو ظاہر کرنے والے چھلکے سے باہر نکل آئے تو مبادا ان کی ذہنی پہنچ پر کوئی حرف نہ آجائے۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ خدانخواستہ “تبسم” پیدا ہوسکے۔ ہنسی اور قہقہہ تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی پریشانی والی بات ہے تو خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے کہہ دیں ورنہ چُپ رہیں۔

اچھا. . . . . تو کیا عقلمندی کے، بصیرت کے، ذہانت کے اور آگہی کے اثرات اصولی طور پہ ایسے ہی ہونے چاہیں؟ مانا کہ شعور اور ادراک انسان کو ایک کرب سے دوچار کرتے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ باشعور افراد ہمہ وقت کرب کی تصویر اور مصدر بن جائیں ؟ بلاشبہ یہ بات تنگ ظرفی کی ہے کہ انسان شعور کے کرب کو اپنے من میں سمیٹ نہ سکے اور پھر اُس رنج سے ادراک کا چین کشید نہ کرسکے ۔

اگر بزرگ، سرکردہ اور باشعور افراد یہ وطیرہ ہی اپنائے رکھیں گے اور خود کو سینیئر ثابت کرنے کے چکر میں اپنے خول تک محدود ہوجائیں گے تو کیا اپنا تجربہ آگے منتقل کر سکیں گے؟ بہت کم ایسے بزرگ اور سرکردہ افراد دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی سمجھ، تجربے اور شعور کے ساتھ ساتھ حلیم اور شفیق بھی ہوں۔

ہمارے معاشرے کو شعور کے ساتھ اس مشفقانہ برتاوٴ اور نرم خوئی کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضرورت کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ جن میں اہم ترین یہ ہیں کہ یہ معاشرہ بیک وقت کئی طرح کی یلغار کا سامنا کر رہا ہے۔ جس میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حملے بہت واضح ہیں۔

چنانچہ وہ افراد جو اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال گزارنے کے بعد شعور اور آگہی کی کسی منزل پر پہنچتے ہیں، اُن پر اپنے معاشرے اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنا تجربہ اور آگہی منتقل کریں ۔ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس عمل میں تحمل، نرمی اور شفقت بہت ضروری ہے تاکہ دوسرے متنفر ہونے کی بجائے راغب ہوں۔ اور دلچسپی قائم رہے۔ یہ قدم معاشرے کی تربیت اور مثبت روئیے پیدا کرنے کے بہت اہم ہے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ اس روئیے کو سوچا جائے، اس کی تیاری کی جائے، عادت ڈالی جائے، اس کی راہ میں آنے والی دشواریوں سے نمٹا جائے اور آہستہ آہستہ ایک معاشرتی طرزِعمل بنایا جائے. . . . . کہ   پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔