مامتا

مامتا

image

ایک شخص، اپنے مرتبے کی عکاسی کرتے نفیس اور عمدہ لباس میں ملبوس، چہرے پر قابلیت کی لکیریں سجائے، اپنے ملازم کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا۔ معلوم ہوتا ہےکہ افسر صاحب کا مزاج برہم ہے اور ملازم خجل ہے۔ ہوا یوں کہ صاحب کی کوئی اہم فائل تھی جو ملازم کہیں رکھ کےبھول گیا ہے اور اب ماحول میں شدید تناوٴ ہے۔ ملازم جھڑکیاں کھانے کے بعد فائل کی تلاش میں دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ صاحب جھنجھلاہٹ میں اپنی اکڑی ہوئی گردن جھکا کر ایک درازمیں فائل ڈھونڈ رہے ہیں۔ کہ شاید غلطی سےفائل وہاں نہ رکھی گئی ہو۔

دراز کے کاغذات کی ترتیب ہلنے کی باعث بدلی ، اور کاغذ کا ایک ٹکڑا . . . ، ا ُلٹتا . . . پلٹتا . . . ، صاحب کے قدموں میں آن گرا۔ صاحب جھکے، کاغذ اٹھایا، دیکھا تو یکایک کائنات ہی بدل گئی ۔ پریشانی اور مزاج کی تلخی ایکدم کہیں غائب ہوگئی۔ یہ ماں کی تصویر تھی۔ جانے کب اس دراز میں رکھ کےبھول گئے۔ آج اچانک ماں کاچہرہ دیکھا تو دل میں مدھر احساس بھر گیا۔ فائل کاخیال ایک لمحے کو پس منظر میں چلا گیا۔

ماں کی شفیق صورت سے جُڑی، کئی چھوٹی بڑی تصویریں ذہن کے پردے پہ تیرنے لگیں ۔ وہ بچپن کے دن، ماں کا نوالے توڑ کے اپنے ہاتھ سے کھلانا، سکول چھوڑنے جانا، نہلانا، ساتھ کھیلنا، سکول کا ہوم ورک کروانا، ٹسٹ یاد کروانا، سکول کاکام کروانے کو ماں کیا کیا جتن نہ کرتی، کبھی ٹافی کا لالچ، کبھی بسکٹ کا، جیسےتیسے سبق یاد کروادیا کرتی، کبھی روٹی بناتے ہوئے، کبھی سلاتے ہوئے، دھوپ میں کھیلنے پہ ڈانٹنا، بےوقت گھر سے باہر نہ جانےدینا، کپڑے جوتے، ہر چیز وقت پہ تیار رکھنا، گھر سےباہر ایک ذرا دیر کیا ہوجایا کرتی، تو ماں پریشان بیٹھی ہوتی۔ ہرمشکل میں ، آڑے وقت میں ماں حوصلہ دیا کرتی۔

چھوٹی چھوٹی دعائیں ماں نے نجانے کب یاد کروادی تھیں، آج بھی وہ کپڑے، جوتے، اورجراب پہنتے ہوئے کبھی بایاں پہلے نہیں پہنتا تھا۔ کہ ماں ہمیشہ دایاں پہلے پہننے کو کہتی تھی۔ جب وہ ماں کے گلے لگتا تھا، کیسی پیاری خوشبو اسےگھیرلیتی تھی۔ ماں کی گود کتنی اپنائیت بھری ہواکرتی تھی۔

آہ . . . . . .آج ماں پاس نہیں ہے۔ وہ اس دیس چلی گئی جہاں سے واپسی کے راستے نہیں ہوا کرتے
وہ خوشبو والی گود،
وہ شفقت بھرا لمس،
وہ محبت برساتی نظریں،
دعائیں دیتے ہلتے لب، ۔ ۔ ۔ آج کہاں ۔ ۔ ۔

اےرب ! ماں کو اپنی رحمتوں سے مالامال کردینا۔ ماں کا ابدی ٹھکانہ جنت کا اعلٰی مقام ہو۔

صاحب ہاتھ میں ، ماں کی تصویر تھامے ، میٹھی سہانی یادوں میں کھوئے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ کہ ایک دم وحشت میں دروازہ کھُلا۔

بیگم صاحبہ بولائی ہوئی اندرآئیں۔ ۔ ۔ صاحب نے سوچا . . . یاالٰہی یہ عورت کیا چیز ہے

بیگم بےحال ہو رہی تھیں۔ ” احمر فٹ بال کھیلتے ہوئے گرگیا ہے، اس کےگھٹنےسے خون نکل رہا ہے۔ پلیز اسے دیکھیں۔

افسر صاحب کو اپنی ماں سے تصوراتی ملاقات میں بیگم کا یوں مُخل ہونا بہت ہی ناگوار گزرا۔ ۔ ۔موڈ ایکدم بدل گیا۔

تم بھی بچوں کا دھیان نہیں رکھتی، اور پھر ذرا ذرا بات پہ ہنگامہ کر دیتی ہو، چلو میں دیکھتا ہوں۔

بیگم سے آنسو سنبھالے نہیں جارہے تھے۔ احمر کو کرسی پہ بٹھا کر وہ پٹی کا سامان لائی۔ صاحب نے گھٹنے سے خون صاف کیا اور اسی دوران قہرآلود نظروں سے بیگم کو سرزنش کرتے رہے کہ یہ سب اس کی لاپرواہی کے سبب ہوا۔

احمر میاں کے پٹی بندھ چکی تھی۔ بیگم صاحبہ کو خاطرخواہ تنبیہ ہو چکی تھی۔ احمر کو لِٹا کر اسے ایک کپ دودھ ،ہزار جتن سے پلایا۔ ٹی وی پہ کارٹون لگا کے دئیے۔ سٹوری بُک سے بہلایا۔ ماتھا چوما۔ احمر کا درد کم ہوا تو بیگم قدرے پرسکون ہوئیں ۔ صاحب نے نہایت افسوس بھرے لہجے میں بیگم سے کہا: یہ ہر وقت شرارتیں کرتا رہتا ہے، تمہارے لاڈ نے اِسے بگاڑ دیا ہے۔

بیگم نے مامتا بھری نگاہ سے احمر کو دیکھتے ہوئےکہا: اتنا چھوٹا تو ہے۔ بچوں کو کھیلنا بھی تو ہوتاہے۔ بڑا ہوگا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔ بیمار بچے نہیں کھیلا کرتے۔ شکر ہے کہ میرا بچہ صحت مند ہے جوکھیلتا بھی ہے اور شرارتیں بھی کرتا ہے۔

صاحب بڑے افسوس سے اپنی احمق بیوی کو دیکھ رہے تھے جس میں نہ انھیں مامتا نظر آئی نہ ماں۔
نہ اپنے بیٹے کے لئے خوشبو بھری گود،
نہ شفقت بھرا لمس،
نہ محبت بکھیرتی آنکھیں،
نہ دعائیں دیتے لب، ۔ ۔

حالانکہ ماں کا وجود تو آج بھی اُن کے پاس موجود تھا، ایک نئے روپ میں، ایک نئے تعلق سے، زمانے کے ارتقاکے مطابق ، کچھ فرق لیکن رشتہ وہی ۔ ۔ ۔

کیا یہ خود غرضی تھی یا نرگسیت، کہ اپنی ماں کی ہر ادا پہ پیار، اور اس عورت پہ حماقت کا گمان جو اُن کی اولاد کی ماں ہے ! اس میں مامتا تلاشی ہی نہیں نہ ہی کسی بھاوٴ اس کے جذبے کو مول ڈالا۔ ایسی نجانے کتنی ہی خوبصورتیاں ہمارے اطراف اپنی قدر پانے کی منتظر رہتی ہیں، جن پہ ہماری نگاہ ِ ناز کبھی پڑتی ہی نہیں ۔ اور ہم زمانے بھر سے نالاں رہتے ہیں۔