Home » Canterbury Tales » کینٹربری کہانیاں – پہلا حصہ

کینٹربری کہانیاں – پہلا حصہ

کینٹربری کہانیاں – تعارف – پہلا حصہ

انگریزی ادب کا اولین شاعر جیفری چاوسر Geoffrey Chaucerکو مانا گیا ہے جس کا کلام کسی طور محفوظ پایا گیا ۔ اور یہ بھی کہ چاوسر نے شاعری کے لئے ایسی انگریزی استعمال کی جو آج کا قاری بھی معمولی تُک بندی سے سمجھ سکتا ہے چنانچہ زبان دانوں نے چاوسر کو ماڈرن انگریزی ادب کا باوا تسلیم کرلیا ۔

یہ قصہ الگ کہ ہم ذہنی اعتبار سے انگریزی زبان کے ایسے سگے امین بنے کہ ہماری پرائمری سکول کی استانی کے ہاتھ چاوسر کی کاپی آجاتی تو وہ کئی سپیلنگز پر سرخ پین سے دائرے بناتی بناتی صفر نمبر دیتی اور تحریر کو انگلش نہ جانتی۔ بہرحال انگریز خُود اپنی مرضی سے چاوسر کی شاعری کو جدید انگریزی شاعری کا نقطہٴ آغاز مانتے ہیں ۔

image

چاوسر کی تاریخ پیدائش نامعلوم ہے لیکن تاریخ وفات 1400 کہی جاتی ہے۔ بھلا ہو ناقدین کا جنھوں نے جدیدیت کو چاوسر صاحب کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو قرار دیا ۔ جدیدیت کے علاوہ اس کی شاعری اور بھی کئی خاص صفات رکھتی ہے

چاوسر کی مشہور ترین نظم ” کینٹربری کہانیاں ” ہے ۔ یہ ایک فریم کہانی ہے جس میں مزید کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں ۔ لندن کے مضافات سے کچھ مسافر ایک قافلے کی صورت کینٹربری کی طرف روانہ ہوتے ہیں جن کا مقصد کینٹربری کے ایک بڑے کلیسا کی زیارت کرنا ہے۔ عام طور پہ ایسے قافلے بہار کی آمد پہ روانہ ہوا کرتے تھے جب برفانی جاڑا رخصت ہوجاتا۔ نظم کا راوی اس سفر کے تمام شرکاٴ کا تعارف کرواتا ہے اور ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ تمام منظر قاری کے سامنے زندە ہوجاتا ہے۔ تعارف کے لئے راوی نے ایسی تفصیلات چنیں جو ہر کردار کی صورت اور سیرت واضح کردیں ۔اُنتیس مسافروں کے اس قافلے میں یہ طے پاتا ہے کہ ہر مسافر منزل کی طرف جاتے ہوئے دو دو کہانیاں سُنائے گا اور واپسی کے سفر میں پھر دو دو کہانیاں سُنائے گا ۔ اِن کہانیوں اور کرداروں کا دلچسپ اور اہم ذکر پھر کبھی سہی ، پہلے اس کے زمانہٴ تحریر پہ بات ہوجائے۔

image

by the brush of an artist

by the brush of an artist


Originally posted on 10th Dec, 2013. Reposting for reference.

Leave a comment