Home » Heart » یہ شیشہٴ دِل . . . مسکن تیرا

یہ شیشہٴ دِل . . . مسکن تیرا

Kanker by Umaira Ahmad

ڈرامہ سیریل کنکر

image

ڈرامہ سیریل “کنکر” معروف لکھاری عمیرہ احمد کی تحریر ہے جو “ہم” ٹی وی سے نشرہورہا ہے۔ یہ کہانی عمیرہ احمد کی كہانى ” وہی دِل کے ٹھہرجانے کا موسم” پر مبنی ہے- اس سیریل میں ڈرامے کے تمام لوازمات مکمل ہیں ۔ ہیرو ہیروئین ، مخالف افراد ، ماں بیٹیاں، ماں بیٹا ، تین الگ الگ جگہ باپ کا کردار ، ساس بہو کا تناوٴ ، طوفانی محبت ، افلاطونی محبت ، چاوٴ بھری شادی ، . . . وغیرہ -مصنفہ نے شعور کی رَو والی ڈرامائی تکنیک کا بہت خوبصورت استعمال کیا ہے ۔ ان سب موضوعات کے ساتھ یہ بنیادی طور پہ “مرد” کی کہانی ثابت ہورہی ہے

مرد کی ذاتی زندگی میں عورت کئی حوالوں سے شامل ہوتی ہے جیسے ماں ، بہن ، بیٹی ، خالہ ، پھوپھی ، . . . لیکن یہ مرد کی زندگی کےاُس پہلو كى كہانى ہے جہاں وہ عورت کا شوہر ہے ۔ یہاں ازدواجی زندگی کے جس پہلو پہ فوکس کیا گیا ہے وہ بیوی کی توہین ، میکے کے سٹیٹس كى تحقیر اور ہاتھ اُٹھانا ہے ۔

کہانی كا ہیرو سکندر وطن واپس آتے ہی ہیروئن کِرن سے اچانک اور شدید محبت کا دعویدار ہے یہاں تک کہ کِرن کے لئے اُس نے ماں کی بھانجی سے رشتہ توڑ کر ، اپنی ماں اور باپ کو بمشکل راضی کیا اور کرن سے شادی کی ۔ کرن کا گھرانہ معاشی اعتبار سے سکندر کا ہم پلہ نہیں ہے ۔ سکندر بہت کم دنوں میں ہی بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگتا ہے ۔ كرن كا كِهلا كِهلا چہره مرجهانے لگا ہے-۔

ِ اسى دوران کرن کی بڑی بہن کی شادی ہوجاتی ہے ۔ بہن کی شادی کے موقعے پر بھی سکندر بیوی کو حیلے بہانوں سے عاجز کرتا ہے ۔ ایک دن کرن کی بہن اسے کھانے پہ بلاتی ہے اورکرن سکندر کی رضامندی سے آنے کا وعدہ کرلیتی ہے ۔ لیکن عین موقعے پر جب کرن جانے کو تیار کھڑی ہے ، دوسری طرف بہن کھانے پہ منتظر ہے، سکندر جانے سے انکار کردیتا ہے ۔ تکرار بڑھتی ہے ، توہین آمیز الفاظ سنانے کے بعد سکندر اُسے دھکا دیتا ہے ۔ کِرن لڑھک کے گرتی ہے اور ماں بننے سے پہلے ہی خوشی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ ڈرامہ ایک موڑ لیتا ہے ، کرن سکندر کے ذکر پر بھی بھڑک اُٹھتی ہے اور طلاق کا مطالبہ کردیتی ہے ۔

اس جگہ پہ عمیرہ احمد ایک تلخ حقیقت سے پردہ اُٹھاتی ہیں ۔ کرن اپنے باپ کے گھر ہے اور اس کی ماں بہنیں اسے قائل کرنا چاہتی ہیں کہ وہ طلاق کا مطالبہ چھوڑ دے ۔ کرن کی دلیل یہ ہے کہ شوہر کے ہاتھوں پِٹنے کا کرب ایسا ہے کہ اس کےبعد وہ اسی شوہر کی اولاد نہیں پیدا کرسکتی ۔ چونکہ اس کی ماں اس کرب سے نہیں گزری لہٰذا وہ اس درد سے آشنا نہیں ۔ اسی بحث کے دوران کرن کی ماں کہتی ہے: تم اپنے باپ کو کیا فرشتہ سمجھتی ہو ، وہ غصے کا تیز اور ہاتھ اٹھانے کا عادی تھا ۔ کرن کی اپنی ماں نے کئی بار اپنے شوہر سے مار کھائی ۔ یہ انکشاف ڈرامے میں کلائمکس کا سماں پیدا کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور مرکزی خیال کو جنم دیتا ہے ۔ کیا کرن کے ساتھ ہونے والا سلوک کرن کے باپ کا مکافاتِ عمل ہے ؟ یہ انکشاف کرن کے لئے لرزہ خیز ہے ۔ وہ اپنے باپ کے لئے کبھی ایسا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ اُس کے لئے اُس کاباپ دنیا کا شفیق ترین انسان ہے ۔۔

دوسری طرف سکندر کے ہاں یہی موضوع زیرِ بحث ہے ۔ سکندر کا باپ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بچے کا ضائع ہوجانا ایک بڑا حادثہ ہے اسی لئے کرن سنبھل نہیں پارہی ۔ وہ سکندر کو ملامت کرتا ہےکہ اُسے بیوی پہ ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیئے تھا ۔ یہاں ایک اور چونکا دینے والا لمحہ ناظرین اور قارئین کا منتظر ہے جب سکندر باپ کو جواب دیتا ہے کہ : میں اور کیا کرتا ۔ یہی سب کچھ تو دیکھتا رہا ہوں بچپن سے ۔ آپ امی پہ ہاتھ اٹھاتے رہے ہیں ۔ اگر آپ کوئی بہتر مثال قائم کرتے تو شاید میں بھی ایسا نہ کررہا ہوتا ۔ سکندر فلیش بیک میں باپ کے ڈانٹنے اور ماں کے رونے کی آواز اکثر سنتا ہے ۔۔

اس مقام کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے تمام فوکس دیگر کرداروں کے ساتھ ساتھ ان دو مردوں پہ مرکوز کردیا ہے جن میں ایک سکندر کا باپ ہے اور ایک کرن کا ۔ دونوں کردار عمر کے اُس حصے میں ہیں جب انسان کی توانائیاں زوال کی طرف رواں دواں ہوتی ہیں اور جب انسان میں اپنے اپنے ظرف کے مطابق خود احتسابی کا عمل کسی نہ کسی حد تک شروع ہوجاتا ہے ۔ اور . . . اس عمر میں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس بہت کربناک ہوتا ہے ۔ سفید بالوں اور پختہ چہروں کے ساتھ ، اولاد کے سامنے خجل نظرىں اور ملامت زدہ تاٴثرات لئے ، والدین بالکل بھی نہیں جچتے۔

image
image

“کنکر” میں ان دونوں کرداروں کو بہروز سبزواری اور شہریار زیدی نے بہت خوب نبھایا ہے جس میں چہرے کے تاٴثرات سے مصنفہ کی بیان کردہ صورتِ حال سے انصاف کیا ہے ۔

یہاں پر کہانی سکندر اور کرن کے جوڑے سے نکل کر ان کے ماں باپ کے گرد گھومنے لگتی ہے ۔ وہ رویہ ایک مرد نے تمام عمر خود اپنائے رکھا ، وہی رویہ جب اسکی اولاد کے سامنےآیا تو اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اور ایسا بےفائدە احساس کہ بہت دیر میں ہو ، اتنی دیر میں کہ مداوے کا وقت باقی نہ رہے ۔ یہ افسوس کی وہ صورت ہے ، جس کا سامنا ، لا علاج امراض میں مبتلا افراد کرتےہیں ۔ ایسی رشتے نِبھ بھی جاتے ہیں ، عورتیں بہت کچھ سہہ کر بھی گھر بنائے رکھتی ہیں جیسا کہ کرن اور سکندر کی ماوٴں نے کیا ۔ ایک مکتبہٴ فکر اس طرزِ عمل کو قابلِ تحسین سمجھتا ہے ، ان کے نزدیک عورت کو صبر کی دیوی ہونا چاہیئے ۔ کچھ کے نزدیک یہ رویئہ غلط ہے ۔ ناحق تحقیر ، ہرگز برداشت نہیں کرنی چاہیے ۔ میرے نزدیک یہ دونوں رویئے ایک دوسرے کا پیش خیمہ بنتے ہیں ۔ پہلی صورت بہرحال زیادە کثرت سے پائی جاتی ہے۔۔

لیکن . . . اس صورت میں عورت کے نقصان سے زیادہ معنوی اور دیرپا نقصان مرد کا ہے ۔ کیونکہ عورت اپنی مٹی میں گندھے برداشت کے مادے کی وجہ سے نباہ کرجاتی ہے ۔ جبکہ مرد کے لئے ایسی عورت کا شوہر اور ساتھی ہونا ، شکستگی اور خلش کا باعث ہے ، جس کا دل وہ خود توڑ چکا ہو ، وہ کملائے ہوئے پودے کی طرح اپنے مزاج کی شگفتگی کھو چکی ہو ۔ اس کے اندر کی پُجارن مرچکی ہو ۔ اور اگر مری نہ ہو تو پوجا سے متنفر ہو چکی ہو ۔۔

یہ بات لفظوں تک محدود نہیں ہے ، گھروں ، محلوں ، خوشیوں غمیوں کے موقعے پہ ایسے چہرے اور کہانی کہتی آنکھیں نظر آنا بہت عام سی بات ہے ۔ کرب کی انتہا یہ ہے کہ کبھی کبھی مائیں اپنی بیٹیوں سے اُن کے شوہروں کی طرف سے ہونے والی بدسلوکی کو اپنے شوہر کے سامنے آنے والا اٹل انجام سمجھ کے قبول کرلیتی ہیں ۔ کہ آج یہ مرد اُس مقام پہ آیا ہے اوربیٹی کا باپ ہونے کی مجبوری چکھ رہا ہے ۔یہی معاملہ بھائیوں کے ساتھ بھی ہے ۔ بہت سے مردوں کو اُس چھناکے کی آواز کبھی سُنائی نہیں دیتی جو عورت کا دل ٹوٹنے سے گونجتی ہے ۔ جیسے کہ کرسٹل کا شفاف چمکنے والا برتن کسی کی ملکیت ہو لیکن وە ملکیتی حق کے ثبوت کے لئے خود ہی اس برتن کو ٹھوکر لگا کے دیکھے جس سے چمک بھی زائل ہو جائے اور وہ ٹوٹ پھوٹ بھی جائے ۔۔

جیسے جیسے عمر کا سفر طے ہوتا ہے ، منزلیں بدلتی ہیں ، ذمہ داریاں انسان پہ عمر ڈھلنے کے آثار مرتب کرتی ہیں ، ویسے ہی احساسِ زیاں کا نقش گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس وقت ملامت کا کوئی فائدہ نہیں ، ماسوائے اِسکے ، کہ ایسے موضوعات کو دیکھنے اور پڑھنے کے بعد بہت سے . . . اپنے رویئوں میں مثبت تبدیلی کرلیں اور بروقت آنکھیں کھول لیں ۔

یہ شیشہٴ دِل . . . مسکن تیرا
جو کنکر سے بھی ٹوٹ گیا
اب کیا حاصل ، اب کیا رونا ،
جب ساتھ ہمارا . . . ٹوٹ گیا ۔
لفظوں کے نوکیلے کنکر سے
اب اور کسے تم توڑو گے
یہ تن من کِرچی کِرچی ہے
بکھرے شیشے کیا جوڑو گے
یہ شیشہٴ دِل . . . مسکن تیرا۔

4 thoughts on “یہ شیشہٴ دِل . . . مسکن تیرا

  1. ابھی حال ہی میں یہ ڈرامہ یوٹیوب پر دیکھا۔۔۔ دیگر کئی دیکھے گئے ڈراموں کے درمیان اس ڈرامے نے اپنی ایک خاص چھاپ چھوڑی۔۔ ایک بار پھر عمیرا احمد نے بڑا ہٹ اور اچھا سیریل دیا۔۔ اس نکتے اور پہلو کی نشاندہی کی، جسے مرد کی عادت کہہ کر قابل معافی قرار دے دیا جاتا ہے۔۔۔ اور اسے مجازی خدا کاحق سمجھ کر اگنور کر دیا جاتا ہے۔۔
    بہت شکریہ آپ نے ریویو بہت اچھا اور سچا دیا۔۔۔

    Liked by 1 person

  2. بہت اعلیٰ۔۔۔۔۔۔
    میں نے اس ڈرامہ کی چند اقساط چلتے پھرتے دیکھی ہیں۔ عمیرہ احمد صاحبہ نے اس بار نہایت عمدہ خیال کو ڈرامائی تشکیل دی ہے۔ بچپن کے مشاہدات اور تجربات اور ان تجربات میں خاص کر والدین کا کردار انسانی شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔
    اس خیال کو شوہروں کے بیویوں پر تشدد کے حوالے سے نہایت خوبصورتی سے ڈرامائی تشکیل دی ہے۔
    میڈیائی بیہودگیوں اور لچر پن کے اس دور میں یہ ایک نہایت عمدہ کاوش ہے۔

    Liked by 1 person

  3. بہت اچھا اور رواں تبصرہ کیا ہے اس ڈرامے کا آپ نے۔ میں نے اس ڈرامے کی شروع کی چند اقساط دیکھیں ہیں۔ اس کے بعد مصروفیت کی وجہ سے نہ دیکھ سکا۔ البتا آپ کا یہ بلاگ پڑھ کر ڈرامے کی کہانی سمجھ آ گئی ھے۔

    ایک رائے دینا چاہوں گا۔ اپنے بلاگ میں جمیل نوری نستعلق فونٹ کا استعمال کریں۔ اردو متن کو پڑھنے کا لطف نستعیق فونٹ میں آتا ہے۔ اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو اردو بلاگستان کے باسی آپ کی مدد کے لیے تیار ہیں۔

    ایم بلال ایم کا بلاگ اس سلسلے میں آپ کا معاون ثابت ہوگا۔ شکریہ!۔۔

    http://www.mbilalm.com/

    Liked by 1 person

Leave a comment